زند گی ۔۔۔

زند گی

دوری کی چادروں میں فاصلوں کو لپیٹ کر بحر ِ اوقیانوس بُرد کر دینا اچھا رہے گا
ہجر کے سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ سب طرح کی “فہمیاں “جان کو عذاب سے نکل جانے کا پروانہؑ راہداری عطا کر دیں گی
یہ قطرہ قطرہ مرنا نہیں رہے گا ، مگر یہ سب ہوا کب اور کیسے ؟ کس بیابان یا نخلستان یا گلستان سے اس نے ورود کیا اور اپنے سیدھے قد سے سامنے کھڑے ہو کر اپنی حاکمیت کی مہر لگا دی ۔ کچھ پوچھنا ، اجازت لینا ، مرضی جاننا جب مشرب میں ہو ہی نہ تو کوئی کیا کرے گا اس تولے اور ماشے کے خاموش اور معصوم جدال کو کوئی جنگ کا الزام بھی کیسے دے سکتا ہے بس ایک قطرہ قطرہ موت ہی مقسوم رہ جاتی ہے ۔

سوچ ہاتھوں سے نکلی جاتی تھی
خیالات میں روانی نہیں تھی

کوئی ہے جس سے پوچھا جائے
یہ سب ہوا کب اور کیسے ہوا

کبھی راستے کا تعین کئے بغیر آگے بڑھتے جائیں منزل کہین نہ کہیں آ ملتی ھے ۔ میں بھی کام میں تھی اور منزل ڈھونڈھ رہی تھی ۔ وہ دور کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا میں کب ہار مانتی ہوں ، کب اس کے پیروں میں بیٹھ جاتی ہوں۔ میری شکست کے میرے اعتراف کے لئے اسے انتظار تھا اور کوئی ایسی جلدی نہیں تھی

ایک بار میں نے اپنی نگارش کا جائزہ لیا اور کتاب بند کرنے کو تھی جب ایسا لگا کسی نے میری گردن پر چٹکی بھری ہو ، آہستہ سے بالوں کو چھوا ہو
میں سیدھی ہو کر بیٹھ گئی شا ئد دیر سے جھکی بیٹھی تھی اور یہ گردن اور کمر کا اعلان ِ احتجاج تھا
گردن اوپر کرتے ہی، سامنے روشندان سے لگا وہ کھڑا نظر آیا۔ روشن چمکتا ہوا آدھا چاند – روشنی کی کرنیں اُچھالتا ، ہوا میں سر اُ ٹھائے اسی کو دیکھتی ، اچانک ہی اپنے اندر کی تبدیلی سے آگاہ پیار کی امنڈتی لہروں میں ہلکو رے لینے لگی

پوچھو گی نہیں اتنے دن کہاں رہا؟

کہاں رہے؟

تم سیاہ ماتمی لباس میں بہت تنہا اور خاموش تھیں میں نے احترام میں تمہیں تمھارے حال پر چھوڑ دیا ۔ اُس وقت تک کے لئے جب تم واپس آنے کا فیصلہ کرو ۔

ہاں معلوم ہے ، جانتی ہوں مگر پھر بھی ایک رات میں نے تمہیں ڈھونڈھا تھا اس وقت تمہیں آفاق کو روش کرتے ابھی دس راتیں ہی ہوئی تھیں پھر کہاں تھے تم ، میں دل گرفتہ تمہیں آوازیں دیتی رہی تھی مگر تم کہیں نظر نہیں آئے۔

جانتا ہوں ، معلوم ہے ۔ تم نے تمہاری گاڑی کا شیشہ نیچے کیا تھا اور سر باہر نکال کر حد ِ نگاہ مجھے ڈھونڈھنے کی کوشش کی تھی مگر میں تمہیں نظر نہیں آیا

کیوں ؟ بارش بھی تو نہیں تھی

مگر دھندلے اور ملال سے میلے بادل تو تھے۔

ہاں شائید ۔

مگر کسی نے ہماری بات کاٹ دی ۔ اس کو جواب دے کر واپس آئی تو وہ روشندان کے شیشے کی حدود سے کہیں پرے جا چکا تھا ۔ کچھ دیر اور ٹھہر جاتے ، میری بات تو سن لیتے۔

تمہیں پتہ ہے ایسے نہیں ہو سکتا ، اس کائنات کو کوئی اور چلا رہا ہے ۔ تم اور میں اس کے کارندے ہیں اور بس ۔

اس کی دور جاتی آواز قطرہ قطرہ میرے اندر آبشار بن کے اُتر گئی۔

ایک بات ملال کی مجھے بھی تم سے کرنی تھی ۔ لگتا ہے زندگی کو زندگی نے چھین لیا ہے ۔ زندگی جو ٹھہرے پانی کی مانند پرسکون تھی ، زندگی نے اس کی پرسکون سطح پر سلوٹیں ڈال دی ہیں تمہیں بتانا تھا کہ زندگی کو حیران چھوڑ کر ، زندگی ، زندگی کے ہاتھوں سے پھسلتی کہیں اور جا نکلی ہے بتانا تھا یہ سب ، پوچھنا تھا تم سے۔۔

۔کہ زندگی اب اس کے کاندھے پر بیٹھی ہے اور وہ زندگی کی دلداری میں زندگی کو آزاد بھی نہیں کرتا،

اب مگر میری بات کا جواب آ یا نہیں ، وہ جا چکا تھا اور آفاق پر کوئی تارہ بھی نہیں تھا جو اُن راستوں کو اُ جا لتا مجھے اس تک لے جاتا ۔

شائید کل پھر آؤ تم
میں رستہ دیکھتی بیٹھوں گی تمہارا۔

روشندان کی تاریکی میں ایک تارہ آ کر بیٹھ گیا مگر وہ میرا ستارہ نہیں تھا۔
Riffat Murtaza .
12/20/2015
اورلینڈو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

For security, use of Google's reCAPTCHA service is required which is subject to the Google Privacy Policy and Terms of Use.

I agree to these terms.